ایڈیٹرہفت روزہ ریاست دہلی (تقسیم ہند سے قبل) دیوان سنگھ مفتون برصغیر کا ایک مشہور اور انقلابی نام ہے۔ انہوں نے جیل میں زندگی کے جو سچے مشاہدات اور تجربات بیان کیے وہ قارئین کی نذر ہیں۔آپ بھی اپنے تجربات لکھئے۔
میں لاہور کے ایک روزانہ اخبار میں سب ایڈیٹر تھا۔ اس زمانہ میں میرے پاس ایک دوسرے سکھ جرنلسٹ آیا کرتے تھے۔ ان کی تعلیم بی اے تک تھی۔ اچھے خاندان سے تھے مگر کثرت سے شراب پینے کے باعث ان کا ضمیر اور ان کی قوت ارادی بالکل مردہ ہوچکی تھی شراب حاصل کرنے کے لئے کوئی کام ایسا نہ تھا جس پر یہ آمادہ نہ ہوسکتے ہوں‘انہوں نے بتایا کہ یہ بیحد تکلیف میں ہیں۔ کوئی شخص ان کا اعتبار نہیں کرتا۔ دوستوں کی نظروں میں گرچکے ہیں۔ گھر والوں کے لئے بوجھ ہیں اور معمولی اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتے ان کو کیا کرنا چاہئے۔
ان کے حالات پر میں کئی روز ہمدردی کے ساتھ غور کرتا رہا مگر میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ ادھر ان کی حالت یہ تھی کہ کھانے کے لئے روٹی نہ ملے مگر شراب ضرور ہو۔ دوستوں سے ایک ایک دو دو روپیہ قرض لیکر شراب کی طلب کو پورا کرتے۔
میری عمر جب اٹھارہ انیس برس کی تھی اور میری فیروزپور کے سکھوں کے حلقہ میں آمدورفت تھی تو ایک حد تک میرے دماغ میں بھی مذہبی دیوانگی تھی اورمیں بغیر سکھوں کے دوسرے تمام مذاہب کو برا سمجھتا تھا حالانکہ نہ سکھ ازم سے واقفیت تھی نہ اسلام سے اور نہ ہندو ازم سے۔ یہ اثر صرف صحبت کا تھا۔ یہ صاحب لاہور میں آیا کرتے تو اس وقت میں ذہنی اعتبار سے ہندوﺅں، مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں میں کوئی فرق نہ سمجھتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ گو آپ کی بیماری حد سے گزرچکی ہے اور جو شخص قوت ارادی سے اس قدر محروم ہوچکا ہو اس کی اصلاح قریب قریب ناممکن ہے مگر پھر بھی کوشش کرنی چاہئے۔ میرے خیال میں سکھوں میں کوئی ایسی سوسائٹی موجود نہیں جو آپ جیسے گئے گزرے شخص کی اصلاح کا بوجھ اٹھا سکے۔ میری تو رائے ہے کہ آپ عیسائی ہوجائیے۔ ممکن ہے کہ پادری لوگ آپ کی اصلاح کرسکیں اور آپ کی زندگی بدل جائے۔ میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر یہ صاحب حیران ہوئے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں نے ان کو یقین دلایا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی رائے دے رہا ہوں۔
میری رائے سن کر یہ چلے گئے اور تین چار روز کے بعد پھر واپس آئے تو پھر اسی مسئلہ پر بات چیت ہوئی۔ میں نے ان سے صاف کہا کہ آپ کی بیماری غالباً لاعلاج حد تک پہنچ چکی ہے اور اب آپ کی شاید ہی اصلاح ہوسکے اور اگر اصلاح ہوئی بھی تو آپ کو قوت ارادی پیدا کرنے کے لئے اپنے دل و دماغ کے ساتھ بہت ہی کشمکش کرنی پڑیگی۔ آپ سوچ لیجئے کہ کیا کرنا چاہئے۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا اور چاہا کہ یہ عیسائی ہوجائیں۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے عیسائی مذہب تبدیل کرنے کا انتظام کروں مگر میں کسی کو نہ جانتا تھا نہ عیسائیوں کے حلقہ سے واقفیت تھی۔ انہوں نے پھر زور دیا کہ میں انتظام کروں کیونکہ یہ اس معاملہ میں کچھ شرم سی محسوس کرتے تھے۔ میں عیسائیوں کے حلقہ سے بالکل ناآشنا تھا مگر اخبارات میں ڈاکٹر دتہ پروفیسر فورمین کرسچین کالج کا نام کئی بار پڑھا تھا۔ میں نے اس جرنلسٹ کو اپنے ساتھ لیا اور ہم ڈاکٹر دتہ کے مکان کی تلاش میں نکلے۔ ایک دو جگہ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ اس سڑک پر رہتے ہیں جو سڑک نیلاگنبد سے میوہسپتال کو جاتی ہے ۔ ہم لوگ تلاش کرتے کرتے ڈاکٹر دتہ کی کوٹھی پر پہنچے۔ شام کا وقت تھا اور ڈاکٹر دتہ برآمدے میں بیٹھے تھے۔ کوٹھی کے باہر کے دروازہ کے پاس ان کا ملازم تھا۔ اس ملازم کو میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا جس پر لکھا تھا ”دیوان سنگھ سب ایڈیٹر روزنامہ اخبار فلاں“ میرا کارڈ جب ڈاکٹر دتہ کے پاس گیا تو انہوں نے بلالیا۔ ہم برآمدہ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب بہت اعزاز واکرام سے ملے۔ جرنلسٹ ہونے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ کوئی شخص ملنے سے انکار نہیں کرتا اور ملتے ہوئے ہر شخص عزت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہم لوگ جب بیٹھے تو خیر خیریت دریافت کرنے کے تبادلہ کے بعد میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں ان صاحب کو لایا ہوں۔ آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ یہ صاحب سکھ ہیں۔ بی اے ہیں۔ جرنلسٹ ہیں۔ بڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر شراب پیتے ہیں۔ رنڈی بازی کرتے ہیں۔ سگریٹ کے کش لگاتے ہیں۔ قمار بازی بھی کبھی کبھی تفریحاً کرلیتے ہیں۔ فاقہ کش ہیں۔ ان کا ضمیر اور قوت ارادی بالکل مردہ ہوچکے ہیں۔ یہ عیسائی ہونا چاہتے ہیں۔ ان کو عیسائی کرلیجئے شاید ان کی اصلاح ہوجائے۔ ڈاکٹر دتہ میرے یہ الفاظ سن کر حیران سے ہوگئے کہ ایک سکھ دوسرے سکھ کو عیسائی کرنے کے لئے لایا ہے۔ ڈاکٹر دتہ نے سمجھا کہ یہ شخص یا تو مذاق کررہا ہے یا کوئی دھوکا یا فریب ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ آپ سکھ ہیں اور ایک سکھ کو عیسائی کرنے کے لئے لائے ہیں معاملہ کیا ہے۔ میں نے پھر سنجیدگی کے ساتھ عرض کیا کہ جو عیوب میں نے بتائے ہیں فی الحقیقت وہ ان میں موجود ہیں میں آپ کو تاریکی میں رکھنا مناسب نہیں سمجھتا تاکہ بعد میں آپ کو علم ہو تو ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ یہ صاحب میرے پاس آئے تھے کہ ان کو موجودہ قابل نفرت زندگی کے بدلنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ میں نے ان کو ایمانداری کے ساتھ رائے دی کہ عیسائی ہوجاﺅ۔ شاید عیسائیوں کے پادریوں کی نیکی کا ان پر اثر ہو اور ان کی زندگی بدل سکے۔ ہم تھوڑی دیر باتیں کرتے رہے اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہم لوگ پھر کسی روز ان سے ملیں۔ میں نے کہا کہ میرا کام تو ختم ہوچکا۔ اب مجھے آپ کے ہاں آنے کی ضرورت نہیں اب یہ سردار صاحب خود ہی آئینگے۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کو دوسرے یورپین پادری کے پاس منصوری پہاڑ پر بھیجا۔ یہ منصوری میں پادری صاحب کے گھر پر غالباً دو ماہ رہے۔ ایک روز پادری صاحب نے صبح دیکھا کہ سردار صاحب کے کمرہ میں شراب کی خالی بوتل پڑی ہے۔ پادری نے ان کو بہت ملامت کی۔ اس کے بعد ایک رات پادری صاحب کے اس کمرہ میں شور پیدا ہوا جہاں کہ ان کی نوجوان لڑکیاں سوئی ہوئی تھیں۔ پادری صاحب اس کمرہ میں پہنچے تو دیکھا کہ سردار صاحب شراب میں بدمست شرمندہ حالت میں کھڑے ہیں اور پادری صاحب کی نیک دل لڑکیاں ان کو برا بھلا کہہ رہی ہیں۔ صبح پادری صاحب نے ان کو لاہور کا کرایہ دیا اور واپس کردیا جس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت یسوع مسیح کی تعلیم کا بھی آپ جیسے پختہ ارادہ کے نوجوان پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ لاہور آنے کے بعد ان کی وہی کیفیت تھی جو لاہور سے منٹگمری جانے سے پہلے تھی۔
میرا جیلوں کا اور جیلوں سے باہر کا تجربہ ہے کہ جب انسان کو چوری، شراب، ڈاکہ، دھوکہ بازی یا کسی قسم کی عادت پڑ جائے تو یہ عادت فطرت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ اس عادت کا جانا بے حد مشکل ہے اور دقت طلب ہے اور اس میں اگر تبدیلی ممکن ہے تو کئی برس تک مسلسل دن رات اپنے ذہن کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد اور وہ بھی اگر انسان کی قسمت اچھی ہو۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 562
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں